ہندوستانی حکومت کے اقدامات کی سپریم کورٹ سے توثیق : تنازعہ جموں کشمیر پر اثرات
تحریر : ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ
مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور ہندوستانی سپریم کورٹ کی توثیق ایک منظم منصوبہ کی تکمیل تھی ۔ مقبوضہ جموںوکشمیر کی اسمبلی کی تحلیل سے لیکر صدارتی راج تک اگر ان تمام اقدامات کو دیکھا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت کا ایک طے شدہ منصوبہ تھا جس پر سلسلہ وار عملدرآمد کیا گیا۔
مقبوضہ جموںوکشمیر میں 2015میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اور محبوبہ مفتی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی حمایت واپس لی جس کی وجہ سے 19جون 2018کو محبوبہ مفتی نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ مقبوضہ کشمیر کے گورنر نے حکومت سازی کی مہلت دیئے بغیر اگلے ہی دن 20جون کو مقبوضہ کشمیر کے آئین کی دفعہ 92 کے تحت گورنر راج نافذ کر دیا۔ حالانکہ محبوبہ مفتی کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ حکومت دوبارہ بنانے کی پوزیشن میں ہیں ۔ یہ گورنر راج قانونی طور پر 6ماہ کے لئے تھا ۔21نومبر2018کو گورنر نے مقبوضہ کشمیر اسمبلی توڑ دی اور 28نومبر کو گورنر نے ہندوستان کے صدر کو صدارتی راج کے لئے تحریک کی ۔19دسمبر2018کو ہندوستان کے صدر نے صدارتی راج نافذ کرتے ہوئے قرار دیا کہ ریاستی حکومت کے تمام اختیارات جو کہ گورنر کو حاصل تھے صدر استعمال کریں گے ۔ ریاستی قانون ساز اسمبلی کے اختیارات پارلیمنٹ استعمال کرے گی اور آئین کے آرٹیکل 3کی پہلی اور دوسری Provisoمعطل رہے گی ۔ اس صدارتی حکم نامے کو 28دسمبر2018کو لوک سبھا اور 3 جون 2019کو راجیہ سبھا نے منظور کیا۔ صدارتی راج کی توسیع ہندوستانی پارلیمنٹ نے 3جولائی 2019کو کی ۔
5اگست2019کو ہندوستان کے صدر نے CO272, the consititution (Application to Jammu & Kashmir) order 2019.جاری کیا۔جس میں کہا گیا کہ اس سے پہلے کے تمام آئینی حکم نامے جن سے آئین کی مخصوص دفعات ترمیم یا بلا ترمیم جموںوکشمیر پر لاگو ہوئی ہیں کی جگہ ہندوستان کے آئین کی تمام دفعات جموںوکشمیر پر لاگو ہوں گی اور آرٹیکل 370(3) میں آئین ساز اسمبلی کے بجائے لفظ قانون ساز اسمبلی استعمال ہو گا۔ 5اگست2019کو ہی بھارتی پارلیمنٹ نے ریاست جموںوکشمیر کی اسمبلی کے طور پر کارروائی کرتے ہوئے جموںوکشمیر ری آرگنائزیشن بل 2019کی منظوری دی۔ پھر 6اگست 2019کو اسی پارلیمنٹ نے ہندوستانی پارلیمنٹ کے طور پر قانون سازی کرتے ہوئے جموںوکشمیر ری آرگنائزیشن بل منظور کیا۔
اس ری آرگنائزیشن کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کو کم کرتے ہوئے دو یونین علاقوں جمو ں وکشمیر اور لداخ میں تبدیل کر دیا گیا۔ مقبوضہ جموںوکشمیر کا آئین ختم کرتے ہوئے ہندوستان کا آئین مکمل طور پر لاگو کیا گیا ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 1927سے لاگو باشندہ ریاست کا قانون جس کو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 35Aکے تحت تحفظ دیا گیا تھاکو بھی ختم کرتے ہوئے مقبوضہ جموںوکشمیر میں ہندوستانیوں کی آبادکاری کے لئے نیا ڈومیسائل قانون بنایا گیا ۔
ہندوستان کے اس اقدام کے خلاف ہندوستانی سپریم کورٹ میں مختلف اپیلیں دائر کی گئیں ۔جن پر بعد از سماعت 5رکنی بنچ نے مورخہ 11ستمبر2023کو فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ 352صفحات پر مشتمل ہے اس کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول نے 121صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ اور جسٹس سنجیو کھنا نے 3صفحات پر اضافی نوٹ تحریر کیا ہے ۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہندوستان کی عدالتوں کے دیگر متعصبانہ فیصلوں کی طرح ہے ۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس میں قرار دیا تھا کہ اگرچہ بابری مسجد کو گرانا درست عمل نہیں ہے لیکن جنہوں نے یہ جرم کیا ان کو بابری مسجد کی جگہ پر قبضے کا حق بھی دے دیا گیا۔ اسی طرح افضل گورو کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اگرچہ افضل گورو کے خلاف کوئی برائے راست شہادت موجود نہیں ہے تاہم عوام کو مطمئن کرنے کے لئے اس کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ۔ اسی طرح اس مقدمے کا فیصلہ بھی ہندوستان کی حکومت کو مطمئن کرنے اور اس کے غیر آئینی کام کو تحفظ دینے کے لئے ہے ۔
پٹیشنرز نے سپریم کورٹ میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی تحلیل اور گورنر راج کو چیلنج کیا لیکن سپریم کورٹ نے اس اہم نقطے کو نظر انداز کیا۔سپریم کورٹ اگر اس بنیادی نقطہ پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتی تو اس کے نتیجے میں مقبوضہ جموںوکشمیر کے حوالہ سے ہونے والی جملہ قانون سازی کالعدم قرار پاتی ۔ مقبوضہ کشمیر میں وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کے دوسرے دن ہی گورنر راج نافذ کیا گیا ۔ جبکہ پیپلز ڈیموکریٹک کی سربراہ محبوبہ مفتی یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور ان کو موقع ہی نہیں مہیا کیا گیا۔ گورنر اور ہندوستان کے صدر کی طرف سے کیے گئے جملہ اقدامات بدنیتی پر مبنی تھے لیکن ہندوستانی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کے پیرا 514Cمیں قرار دیا کہ صدر کا کوئی بھی اقدام بدنیتی پر مبنی نہیں ہے ۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے پیرا514Gمیں قرار دیا کہ آئینی حکم نامہ 272کا پیرا 2ماورائے قانون ہے کیونکہ اس میں آرٹیکل 367کے ذریعے آرٹیکل 370میں ترمیم کی گئی اور یہ ترمیم آرٹیکل 370 میں مذکور طریقہ کار کے بغیر کی گئی ۔
ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370(1)کے مطابق صدر کو اختیار ہے کہ وہ ہندوستانی آئین کی کوئی بھی دفعات ریاست جموںو کشمیر پر لاگو کر دے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ریاستی حکومت کی منظوری حاصل کی جائے ۔ اگست 2019میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں کوئی بھی جمہوری منتخب حکومت موجود نہیں تھی بلکہ صدارتی راج نافذ تھا۔ آرٹیکل 370(3)صدر کو اختیار دیتا تھا کہ وہ آرٹیکل 370کو کلی یا جزوی طور پر یا کسی تبدیلی کے ساتھ غیر موثر قرار دیدے ۔ لیکن اس کے لئے مقبوضہ جموںوکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارشات ضروری تھی مقبوضہ جموںوکشمیر میں آئین ساز اسمبلی 1957میں تحلیل کر دی گئی تھی ۔19دسمبر2018 کو جب مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج نافذ کیا گیا تو اس حکم نامے میں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 3کی دو شرائط معطل کی گئیں ۔ جن کے مطابق کسی بھی ریاست کے نام یا علاقہ میں تبدیلی کے لئے اس ریاست کی حکومت کی رضا مندی حاصل کی جانی تھی وہ شرط معطل کی گئی ۔ اسی طرح آئینی حکم نامہ 272میں آرٹیکل 370(1)(D)کا سہارا لیتے ہوئے 370(3)میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 367(4)ایک نئی شرط شامل کی گئی جس میں آئین ساز اسمبلی کی جگہ قانون ساز اسمبلی کا لفظ شامل کیا گیا اور متعلقہ ریاست کی حکومت کے بجائے لفظ گورنر جموں وکشمیر شامل کیا گیا ۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے جب اس آئینی حکم نامے 272کو ماورائے قانون قرار دیا تو اس کے تحت یہ سارا عمل غیر آئینی قرار دیا جانا چاہیے تھا لیکن اس کے بجائے یہ کہا گیا کہ صدارتی راج کے دوران اگر ہر فیصلہ جو یونین حکومت ریاست کی طرف سے کرتی ہے کو چیلنج کرنے کا راستہ کھول دیا جائے تو اس سے ریاست کا انتظام جوں کا توں رہے گا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کے بارے میں صدارتی راج کے دوران ہندوستانی حکومت جو بھی فیصلہ کر لے وہ غیر آئین ہونے کے باوجود چیلنج نہیں ہو سکتا۔ یہ ہندوستان میں شامل دوسری ریاستوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے سب سے اہم سوال کہ کیا ہندوستان کی پارلیمنٹ کسی ریاست کی منتخب نمائندہ اسمبلی کی رضا مندی کے بغیر کسی ریاست کو تقسیم کرنے یا اس کو یونین علاقہ قرار دینے کے بارے میں مکمل اختیار رکھتی ہے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ عدالت نے سولسٹر جرنل کے بیان کہ وہ لداخ کو چھوڑ کر جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کریں گے پر اس بنیادی نقطے سے پہلو تہی کی ۔مقبوضہ ریاست جموںوکشمیر 5اگست2019سے قبل جموں ،وادی ،لداخ اور کارگل پر مشتمل تھی ۔2علاقوں کے بارے میں فیصلہ کرنا اور دو علاقوں کو یونین علاقہ چھوڑ دینا کسی طرح بھی ریاستی حیثیت کی بحالی نہ ہے ۔ اس کے علاوہ ریاستی حیثیت کی بحالی کے حوالہ سے کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا گیا ۔جسٹس سنجے کشن کول نے اپنے اضافی نوٹ میں ریاست جموںوکشمیر کی تاریخ کا ایک خلاصہ تحریر کیا اس نوٹ کے اختتامیہ میں جنوبی افریقہ کے طرز پر Truth and Reconciliation Commissionکے قیام کی تجویز دی ہے ۔ لیکن ہندوستان کی حکومت یا عدلیہ کی سربراہی میں بننے والا ایسا کوئی کمیشن کسی طور پر بھی ہندوستانی قابض افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر اقوام متحدہ کے کی زیر نگرانی یا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی زیر نگرانی ایسا کوئی کمیشن تشکیل دیا جائے جیسے انٹرنیشنل کمیشن یوگوسلاویہ اور رونڈا میں بنائے گئے تو ہندوستانی قابض افواج کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جا سکتے ہیں ۔
ہندوستانی سپریم کورٹ اور ہندوستان کی طرف سے آرٹیکل 370 میں ترمیم اور بعد کے اقدامات کے حوالہ سے دو سوال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ پہلا سوال کیا ان اقدامات سے تنازعہ کشمیر کی حثیت بدل جائے گی اور دوسرا سوال جب جموں و کشمیر کے عوام ہندوستان کے آئین کو ہی نہیں مانتے تو ان ترامیم پر احتجاج کیوں ؟ ۔ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے کہ کیا تنازعہ کشمیر کی حثیت بدل جائے گی ؟ ۔ تنازعہ کشمیر پر ان فیصلہ جات کا کوئی اثر نہیں ، ہندوستان کے آئین میں 370 کے علاوہ بھی آرٹیکل 01 کے مطابق جموں و کشمیر پہلے شیڈول میں بطور پارٹ III ریاست شامل ہے ۔ آرٹیکل 370(1)(C) کے مطابق ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل01 کشمیر پر لاگوہو گا۔ اس طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کا دستور جو 17 نومبر 1956 کو منظور ہوا اس کے دیباچہ میں ہندوستان کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 122(1957) میں قرار دیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے کسی بھی ایک حصہ کی آئین ساز اسمبلی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتی اور اس کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوںکی نگرانی میں ساری ریاست میں ایک ساتھ آزادانہ ،منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعہ ہو گا۔ سوائے ہندوستان کے ساری اقوام عالم اور خود جموں و کشمیر کے عوام کشمیر کو متنازعہ خطہ سمجھتے ہیں ۔
دوسرا سوال کاجوا ب ہمیشہ جموں و کشمیر کے عوام نے دیا ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت قیادت کو بار ہا ہندوستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے اور زیادہ اندرونی خود مختاری کے لیے ہندوستان کی حکومتوں کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کی گئی جس کو کشمیری قیادت نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ہندوستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے وہ کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔ آرٹیکل 370 کے تحت حاصل اختیارات کی روشنی میں صدر ہند نے آئین میں آرٹیکل 35-A شامل کیا تھا جو مقبوضہ جموں و کشمیر آئین ساز اسمبلی کو مستقل رہائشی کی تعریف اور اس کو حاصل ہونے والی مراعات کا تعین کر سکتی تھی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے آئین کے دفعہ 06 میں مستقل باشندہ کی تعریف کی گئی جو وہی ہے جو مہاراجہ کے پشتنی باشندہ ریاست کے قانون 1927 میں درج ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو اس ترمیم کے مضمرات کا اندازہ ہے اور اس کے فوری بعد ہندوستان نے ڈومیسائل کا قانون اور دیگر قوانین نافذ کر کے ہندوستانیوں کو کشمیر کی شہریت دینا شروع کر دی جس نہ صرف جموں و کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب کم ہو گا بلکہ اس سے کشمیر کی زبان، ثقافت، اقدار اور مقامی کشمیریوں کی معشیت کو بھی شدید نقصان پنچ رہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو یونین علاقوں میں تقسیم کر کے ریاست کی حثیت کو ختم کر دیا گیا۔ اس وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی پسند عوام کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی جو ہندوستان نواز تھے احتجاج کر رہے ہیں ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان ترامیم سے نہ صرف جموں و کشمیر کے مسلمان بلکہ سکھ، پنڈت، ہندو اور بدھ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
ہندوستان کے 05 اگست 2019 اور اس کے بعد کے اقدامات سے ہندوستان کے خلاف جموں و کشمیر میں نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان کے حالات معمول پر آنے کے دعوے بھی حقائق پر مبنی نہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان نے قابض فوج کی تعداد میں ایک سپاہی کی بھی کمی نہیں کی۔
موجودہ صورتحال میں آزاد کشمیر اور بیرون ملک مقیم کشمیریوں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے وہ اس تنازعہ کو اس کے حقیقی تناظر حق خودارادیت کے مسئلہ کے طور پر اجاگر کریں ۔ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ لابنگ کی ضرورت ہے اور لابنگ کے لیے تحقیق کو فروغ دیا جانا ضروری ہے۔ محقیقین اور سکالرز کا کلیدی کردار ہے جو اس مسئلہ کے تمام پہلووں پر تحقیق کر کے اخبارات، تحقیقی مجلوں اور دیگر ذرائع سے پالیسی ساز اداروں، دانشوروں اور دنیا بھر کی جامعات کے اساتذہ اور طلبا تک اس تنازعہ کے حقائق پنچا کر ہندوستان کے خلاف حقائق پروپگنڈے کے اثرات کو زائل کریں۔